از- سید حذیفہ علی ندوی، کیمبرج، یو کے
اس وقت سوشل میڈیا کا جو منظرنامہ سامنے آتا ہے، وہ ہماری اجتماعی اخلاقیات اور انسانی رویوں کے زوال کی ایک نمایاں تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم، جو اصل میں پیغام رسانی یا خیر و بھلائی، علم کے فروغ اور انسانوں کو قریب لانے کے لیے بنایا گیا تھا، بدقسمتی سے اختلافات اور بے جا مباحثوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم بطور معاشرہ کس قدر اپنی اصل ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔
کسی افسوناک سانحے یا انتقال کا لمحہ جو فطری طور پر دعا، ہمدردی اور غمگساری کا وقت ہوتا ہے، آج کل سوشل میڈیا پر غیر ضروری مباحثوں کا شکار ہو جاتا ہے. مرنے والے کی اچھائیاں محاسن خدمات اور شخصیت کو سراہنے کے بجائے، فورا ان کے پیش رو متبادل اور جاں نشیں کی قیاس آرائیاں اور ان کی ذات پر تبصرے ہونے لگتے ہیں، یہ کہ آیا ان کی جگہ لینے والا اہل ہے یا نہیں، یا یہ کہ ان کی ذمہ داریوں کا حق کس کو دینا چاہیے تھا۔ یہ رویہ ایک طرف اخلاقی تنزل کی علامت ہے اور دوسری طرف ہمارے سماج میں بڑھتی بے حسی کا واضح ثبوت ہے. اس وقت کئے جانے والے تبصرے بسا اوقات مرنے والے کی یاد کو غیر ضروری تنقید یا بحث کا ذریعہ بنا دیتے ہیں، جو اس وقت کی سنجیدگی اور احترام کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کسی کے انتقال کے موقع پر ہماری گفتگو، چاہے وہ زبانی ہو یا تحریری، ایک ایسا عمل ہے جس کا اثر نہ صرف مرحوم کے اہلِ خانہ پر ہوتا ہے بلکہ ہمارے اجتماعی رویے کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔
مزید برآں، تعزیتی مجالس پر اعتراضات اور ان کے فوائد پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مجالس نہ صرف مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت اور اس کے محاسن کے تذکرے اور ان ترغیب کا ذریعہ ہیں، بلکہ ان کے اہلِ خانہ کو تسلی دینے اور دکھ بانٹنے کا ایک مہذب طریقہ بھی ہیں۔ لیکن آج کے اہل صفا ان مجالس کو نمائشی اور غیر ضروری قرار دے کر شرکاء کی نیتوں اور افادیت پر شک کرتے ہیں۔
یقیناً، ہر شخص کو اختلافِ رائے رکھنے اور تنقید کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن کیا یہ حق ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم اختلاف کو ہر موقع پر چھیڑ دیں، خاص طور پر ایسے مواقع پر جو تعزیت اور ہمدردی کے متقاضی ہوں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر مسئلے کو سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنایا جائے؟ مزید برآں، عہدوں کا اعلان سوشل میڈیا پر اطلاع رسانی کے لیے ہوتا ہے، جبکہ اختلاف رائے ذمہ داری اور حکمت کا متقاضی ہے۔ اعلان ایک اطلاع ہے، لیکن اختلاف مکالمہ ہے، جس میں الفاظ، موقع، اور انداز کی اہمیت ہوتی ہے۔ عربي مثل ہے لكل مقام مقال اور لكل فن رجال .
سوشل میڈیا کا بے جا استعمال قیمتی وقت کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے، حالانکہ وقت اللہ کی عظیم امانت ہے جس کا حساب قیامت کے دن ہوگا۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنا وقت علم، بھلائی اور نفع رسانی میں صرف کرے، کیونکہ سوشل میڈیا پر کہے گئے ہر لفظ کا اثر دنیا و آخرت پر پڑتا ہے۔
اس معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان غیر ضروری مباحثوں میں ملوث اکثر افراد وہ ہیں جو دینی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ حقیقت ہمارے زوال کی شدت کو اور بھی سنگین بنا دیتی ہے۔ وہ افراد، جنہیں علمِ دین کے ساتھ اخلاق، حلم اور ہمدردی کا پیکر اور عام مسلمانوں کیلئے نمونہ ہونا چاہیے تھا، آج وہی لوگ سوشل میڈیا پر غیر محتاط رویوں اور غیر سنجیدہ بحثوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ یہ بات ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے کہ علم کے حقیقی مقاصد پر دوبارہ غور کیا جائے اور معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں۔ اختلاف کا حق ضرور استعمال کریں، لیکن یہ حق اسی وقت اور اسی انداز میں استعمال کیا جائے جب اس سے کوئی مثبت پیغام دیا جا سکے اور معاشرتی اصلاح کی راہ ہموار ہو اور بہر صورت یہ کسی کی دل آزاری یا زخموں پر نمک پاشی کا سبب نہ بنے۔
یہاں ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے، کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اللہ کے پسندیدہ راستے پر چلے، بلکہ اس کے رویے اور اعمال دوسروں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بھی بنیں۔ ہمارا ہر عمل، چاہے وہ خوشی کا ہو یا غم کا، اسلام کی حقیقی تعلیمات کی عکاسی کرے۔ خاص طور پر علماء پر لازم ہے کہ وہ ہر موقع پر رسولِ اکرم (ﷺ) کے کردار کا عملی نمونہ پیش کریں۔
علماء، جو “الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ” ہیں، اپنی زندگی کو نبوی سیرت کا آئینہ بنائیں۔ اگر وہ اور مسلمان عمومی طور پر ایسا نہ کریں، تو لوگ اسلام کو غیر مناسب رویوں سے جوڑ سکتے ہیں، جو دین کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اس لیے علماء اور دینی طبقے کو ایسے اخلاق و رویے اپنانے چاہئیں جو اسلام کی حقیقت اور خوبصورتی کو اجاگر کریں، نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی۔
میرے والد محترم، مولانا سید نعیم اختر ندوی رحمہ اللہ، فرمایا کرتے تھے کہ ہر شخص صرف اپنی خواہش کے مطابق نظام بدلنے کی آرزو کرتا ہے، لیکن جب خود اقتدار میں آتا ہے تو حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ ایک بار انہوں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ اصل مسئلہ نظام میں نہیں، بلکہ نیتوں اور رویوں میں ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہی بات صادق آتی ہے؛ لوگوں کو اصلاح کی فکر کم اور اپنی بات منوانے کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان و قلم اور وقت کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔