از- سید حذیفہ علی ندوی، کیمبرج، یو کے

رشتوں کی دنیا وسیع ہے۔ کہیں خون کی قرابت دل کو باندھتی ہے، کہیں وطن کی نسبت آنسو جگا دیتی ہے، کہیں زبان کی شراکت روح میں رس گھولتی ہے۔ مگر ایک رشتہ ایسا بھی ہے جو نہ خونی بندھن کا محتاج ہے، نہ سرحد کا پابند، نہ زمان و مکان کا اسیر—یہ استاد کی نسبت ہے؛ وہ نسبت جو حرف کی امانت سے بنتی ہے اور حال کے نور سے پروان چڑھتی ہے۔

علم کی بزم میں یہ نسبت دو رخ لیے جلوہ گر ہوتی ہے۔ ایک وہ جو حرف و ہنر کی ترتیب دکھاتی، اعداد و حروف کے سانچے بناتی اور استدلال کی راہیں ہموار کرتی ہے؛ دوسری وہ جو دل کے نہاں خانوں میں اُتر کر یقین کی زنجیر مضبوط کرتی، کردار کو جِلا دیتی اور حیات کے افق پر ایسی لکیر کھینچ دیتی ہے جسے عبور کیے بغیر منزل دکھائی نہیں دیتی۔ پہلی نسبت ذہنی مہارتوں کو سنوارتی ہے، جب کہ دوسری نسبت مہارت کے ساتھ ایمان اور بصیرت بھی عطا کرتی ہے؛ پہلی آدمی کو فن میں کامل بناتی ہے، دوسری اُسے فن کے ساتھ صاحبِ شعور اور صاحبِ یقین بھی کر دیتی ہے۔

یہ عمارت تب تک مستحکم رہتی ہے جب تک بنیاد سلامت ہو۔ اگر بنیاد میں دراڑ آ جائے تو محراب کتنی ہی دیدہ زَیب کیوں نہ ہو، گنبد کی خوب صورتی دل مطمئن نہیں کرتی۔ مسافر جانتے ہیں کہ منزل کی پہچان روشن نشانوں سے ہوتی ہے؛ جب نشان دھندلا جائیں تو قدموں کو احتیاط کی لگام دینی پڑتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت کے کسی موڑ پر وہی رہنما، جن کا اشارۂ نگاہ دستورِ سفر تھا، یوں اشارے دینے لگتے ہیں کہ سمتِ سفر ہی بدلتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ تب شاگرد کے پاس ایک ہی میزان بچتی ہے: اصول۔ اگر اصول باقی رہیں تو نسبت سلامت، اصول ڈھے جائیں تو تعارف کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ یہیں آ کر دل میں سوال ابھرتا ہے کہ استاد کی حمایت مقدم ہے یا
اُن اصولوں کی پاس داری جن پر یہ نسبت استوار ہے؟

 یہی وہ مقام ہے جہاں اصل آزمائش شاگرد کی بصیرت سے شروع ہوتی ہے۔ اُسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ عقیدت کی حدود کہاں تک جائیں، اور اصول کی پاس داری کہاں سے آغاز پائے۔ نسبت کا احترام اپنی جگہ مسلم ہے، مگر اس نسبت کی بقا اُن اصولوں سے وابستہ ہے جن پر وہ قائم ہوئی ہے—نہ کہ کسی لمحاتی تاثر یا خوش آہنگ جملے پر۔ سوشل میڈیا کا شور اور تیز رفتار ماحول بعض اوقات بات کی اصل کو دھندلا دیتے ہیں۔ جو جملہ فوری اثر ڈالے، ضروری نہیں کہ وہ میزانِ اصول پر بھی پورا اُترے۔ شہرت جتنی بھی روشن دکھائی دے، اگر اُس کا مدار اصول پر نہ ہو تو وہ رہنمائی کے بجائے بھٹکانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ شاگرد کا فرض ہے کہ اصول کا قطب نما ہاتھ سے نہ چھوڑے؛ بات کتنی ہی دل نشین ہو، معتبر وہی ہے جو صداقت کی رہ گزار پر ہو۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں مجلسِ درس میں کہی گئی بات—چاہے کوئی تشبیہ ہو، اندازِ بیان ہو، یا کوئی نکتہ—اکثر مکمل واضح نہ ہوتی، مگر چونکہ وہ بات اسی ماحول تک محدود رہتی اور سامعین استاد کی نیت اور سیاق سے واقف ہوتے، اس لیے نہ وہ اعتراض کا باعث بنتی، نہ فہم میں خلل ڈالتی۔ اگلی نشست میں رجوع یا وضاحت ہو جاتی، اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔ لیکن اب ماحول بدل چکا ہے۔ تعلیم صرف کلاس روم تک محدود نہیں رہی؛ موبائل کی اسکرین، ویڈیو کلپس، اور سوشل میڈیا کے مختصر اقتباسات نئی درسگاہوں کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ اب وہی بات جو کبھی تمثیل کے طور پر کہی گئی، ہزاروں افراد تک پہنچ کر نیا مفہوم اختیار کر لیتی ہے، اور بعد کی وضاحت، چاہے کتنی ہی مخلصانہ ہو، ہر بار مؤثر نہیں رہتی۔

اسی لیے آج استاد پر لازم ہے کہ ہر بات سوچ سمجھ کر کہے، اور ہر لفظ کو دل و دین کی میزان پر رکھ کر بولے۔ اب بات محض ایک لمحے کی بات نہیں رہی؛ وہ باقی بھی رہتی ہے، حوالہ بھی بن جاتی ہے۔ شاگرد کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ہر پرکشش جملے کو بلا تحقیق قبول نہ کرے؛ خوش آہنگ بات وہی معتبر ہے جو صداقت کی راہ پر ہو، اور جس کا رشتہ دین کے اجالے سے جڑا ہو۔ نسبت کا توازن تبھی سلامت رہتا ہے جب استاد کی بات امانت ہو، اور شاگرد کی توجہ میزان۔ اگر یہ توازن ٹوٹ جائے، تو منظر خواہ کتنا بھی خوش نما ہو، بصیرت سے خالی رہ جاتا ہے۔

جڑیں خشک ہوں تو شاخوں کی ہریالی بھی بے ثمر رہتی ہے۔ استاد کی عزت اسی وقت دل میں جمتی ہے جب اس کے قول و عمل نسبت کی حرارت کو زندہ رکھیں؛ حرارت مدھم پڑ جائے تو احترام خود رخصت ہو جاتا ہے۔ تعظیم کا پہلا حق خود استاد پر ہے کہ وہ اصول تھامے، زبان کو میزان میں تولے اور قلم کو امانت بنائے، تاکہ شاگرد کے دل میں اعتماد کی روشنی ماند نہ پڑے۔ اگر لو کمزور محسوس ہو تو نام کے سہارے پر تکیہ کرنے کے بجائے اصول کی چنگاری کو تازہ کرنا لازم ہے؛ شیشے پر پڑی گرد صاف کی جائے تو روشنی دوسرے ہی لمحے لوٹ آتی ہے۔ یہ کوئی بے ادبی نہیں، اصول کی پاسبانی ہے۔

بعض مسافر اس مرحلے پر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ استاد تو ہمیشہ استاد رہتا ہے! رہتا ضرور ہے، مگر اسی درجہ تک جہاں تک نسبت کا ستون ڈٹا رہے۔ اگر ستون ہل جائے تو مینارِ عزت یادگار رہ جاتا ہے، رہنما نہیں۔

ایسے نشیب و فراز میں شاگرد کا فرض یہی ہے کہ فکری قطب نما کو اصول پر رکھے، شخصیت پر نہیں۔ وہ مودّت جو حرف کی امانت سے بنی تھی، امانت ہی کے ساتھ محفوظ رہ سکتی ہے؛ اگر امانت دُھندلا جائے تو مودّت صدائے بازگشت تو رہ جاتی ہے، مشعلِ راہ نہیں۔

اساتذہ کی عطا کردہ روشنی سرمایۂ حیات ہے، مگر روشنی کا وصف یہ ہے کہ خود شعلہ مستحکم ہو۔ سفر کا تقاضا یہی ہے کہ چراغوں کی حدت اور سمت دونوں کو پرکھتے رہیں۔ اگر شیشے پر غبار جم جائے تو دستِ فکر حرکت میں لانا حق بنتا ہے۔ یوں نسبت کا وقار محفوظ رہتا ہے اور مسافر راہ میں گم نہیں ہوتا—یہی نسبت کی امانت ہے اور یہی دل کی حقیقی وفاداری۔

یوں قلم رکھتے رکھتے دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ نسبت کا بکھرتا وقار، اصول کی پہچان، اور استاد کا بدلتا مقام… یہی احساس اشعار کی صورت لبوں پر آ گیا۔

کاش آجائے وہ ایمانی بصیرت کی طرف

قول وکردار، اصولوں کی حقیقت کی طرف

پھر الٰہی رہِ غفلت کا یہ راہی پلٹے

علمی نسبت کی طرف، دیں کی حفاظت کی طرف

1 thought on “استاد یا اصول؟ نسبت کا اصل امتحان”

  1. Fareeha Naseer

    MashaAllah BarakAllah your article is incredible. You have such a unique perspective. May Allah bless you abundantly.. ameen

Leave a Reply to Fareeha Naseer Cancel Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top